Bookmark and Share

Search This Blog

Thursday, November 8, 2012

حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ




حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا نام بود خشان بن مورسلان تھا مذہب کے لحاظ سے آتش پرست تھے ۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام والد نے مابہ رکھا تھا ۔ کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ ملک فارس کے شہر اصفہان یارا مہر مز میں پیدا ہوئے اسی وجہ سے فارسی کہلاتے ہیں ۔ بعد میں دینِ عیسوی کو قبول کیا تھا، اور اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ تلاش حق میں مدینہ پہنچے اور جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری 
مدینہ میں ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعتِ اسلام کی، اس وقت ایک یہودی کے غلام تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے تقریبا 300 پودے یہودی کے باغ میں لگاکرحضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو اسکے ہاتھوں 

سے آزاد کرایا ۔ 

 
سب سے پہلے غزوہ خندق میں شریک ہوئے اور پھر برابر ہر غزوہ میں شریک رہے ۔ غزوہ خندق میں آپ رضی اللہ عنہ ہی کے مشورے کے مطابق مدینہ کے گرد خندقیں کھودی گئیں جس سے دشمن کو مشکلات اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
غزوہ خندق کے موقع پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مہاجرین وانصار کا اختلاف ہوا ،انصار نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں ، یہ اختلاف سن کر سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلمان منا اھل البیت ( یعنی سلمان نہ انصارمیں سے ہیں نہ عام مہاجرین میں سے ہیں بلکہ وہ ہمارے اہل بیت 

میں سے ہیں )

سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جنت تین شخصوں کی مشتاق ہے۔ علی (رضی اللہ عنہ ) 

عمار ( رضی اللہ عنہ ) اور سلمان ( رضی اللہ عنہ ) کی ۔ 
سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چار شخصوں سے خصوصی محبت رکھنے کا حکم فرمایا ہے ، اور مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی ان چاروں سے خصوصی محبت ہے ۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نام ہمیں بتادیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ مقداد رضی اللہ عنہ ۔ سلمان رضی اللہ عنہ 
سید عالم کا ارشاد ہے کہ سبقت لے جانے والے ( دین حق کی طرف اپنے اپنے علاقوں اور قبیلوں میں سے ) چار ہیں میں عرب میں سب سے آگے بڑھ جانے والا ہوں ۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ روم سے۔سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارس سے بلال حبشی رضی اللہ عنہ حبشہ سے ۔

ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حاضرین مجلس نے عرض کیا کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کن خوبیوں کے جامع تھے ؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لقمان حکیم کی جگہ اپنے لئے تم ان ( سلمان رضی اللہ عنہ ) ہی کو سمجھ لو ، پھر فرمایا کہ وہ تو ہم یعنی اہل بیت میں سے ہیں اور وہ ہمارے ہی ہیں ، علم اول اور علم آخر انہوں نے حاصل کیا ، کتاب اول ( انجیل ) اور کتاب آخر ( قرآن کریم ) پڑھی ۔ وہ ( علم کا ) ایسا سمندر ہیں جو ختم نہ ہوسکے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت وصیت فرمائی کہ چار شخصوں سے علم حاصل کرو ابو الدردارضی اللہ عنہ سلمان رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ۔

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سادہ طبیعت اور متواضع انسان ہی نہ تھے بلکہ شہرت اور بڑائی کو ساری امت کےلئے مصیبت کا پیش خیمہ سمجھتے تھے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مدائن کے گورنر مقرر کردئیے گئے ، تقریباً پانچ ہزار دراھم وظیفہ مقرر تھا ، لیکن آپ سارا وظیفہ صدقہ کردیتے اور ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے ، گورنر ہوکر بھی ایک کوٹھڑی تک نہ بنا ئی بلکہ ایک '' عبا'' پاس تھی ، آدھی بچھا لیتے تھے اور آدھی کو اوڑھ لیتے تھے اور درختوں کے سایہ میں آرام فرمالیتے ۔ جب سایہ چھٹ جاتا تو سایہ کے ساتھ خود بھی سرک جاتے تھے ، کبھی صرف درخت پر کپڑا ڈال کر کام چلا لیا کرتے اور اسی کو مکان کی جگہ استعمال فرمالیا کرتے ۔

گورنری کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص شام سے مدائن آیا اسکے پاس بُھس کا بوجھ تھا ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ پر نظر پڑی کہ خالی ہاتھ ہیں تو کہنے لگا کہ آپ ذرا میر ابوجھ لے چلیں ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے بُھس کا گٹھڑا اٹھا کر سر پر رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو اس شخص سے کہااے میاں ! یہ تو گورنر ہیں ان کو تونے کیوں لاددیا ؟ یہ سنکر وہ شخص بڑا شرمندہ ہوا اور معذرت کرنے لگا حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب تو تیرے گھر تک میں ہی پہنچاؤں گا ، جب میں نے ایک نیک کام کی نیت کرلی تو اب اسے پورا کئے بغیر نہ چھوڑوں گا ۔

قبیلہ بنی عبس کا ایک شخص ،حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس نیت سے ایک سفر میں ساتھی بنا کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کچھ سیکھے مگر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کو خادم بنا کر نہیں رکھا بلکہ چھوٹے بڑے کام خود کرتے رہے اور ان کو کسی طرح بھی کام میں نہ پڑنے دیا ۔ اگر وہ آٹا گوندھ دیتا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روٹی پکا دیتے تھے اور اگر وہ سواریوں کےلئے چارہ فراہم کردیتا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ان کو پانی پلاکر لاتے تھے ۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک مرتبہ قریش فخر کے طور پر اپنے نسب کی بڑائی بیان کرنے لگے ، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے انکی بات سن کر فرمایا کہ میں تو اپنے کو ذرا بھی قابل فخر نہیں سمجھتا ، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ میں ناپاک نطفہ سے پیدا کیا گیا ہوں اور مر کر بدبودار نعش بن جاؤں گا ،اسکے بعد مجھے میزانِ عدل ( قیامت کے دن انصاف کے ترازو) پر کھڑا کیا جائے گا ،اگر اس وقت میری نیکیاں بھاری نکلیں تو میں عزت وشرافت کا مستحق ہوں اور اگر میری نیکیاں گناہوں کے مقابلہ میں ہلکی رہ گئیں تو میں رزیل اور حقیرہوں۔ ایک مرتبہ جریر نامی ایک شخص سے فرمایا کہ اللہ کے لئے تواضع اختیار کر ،جوشخص دنیا میں اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسکو قیامت کے روز بلند فرمائے گا ۔

ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ دل اور جسم کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا ہو، اور ایک اپاہج ہو اپاہج کو درخت پر کھجور نظر آئی مگر توڑ نہیں سکتا اور اندھا توڑسکتا ہے مگر اسے نظر نہیں آتا ہے ۔ لہٰذا اپاہج نے اندھے سے کہا کہ مجھے کاندھے پر چڑھا کر کھجور تک پہنچادے تو میں توڑ لوں گا ( اور دونوں ملکر کھا لیں گے ) لہٰذا اندھے نے اس کی بات مان لی اور دونوں کو کھجور مل گئی بالکل اسی طرح دل اور جسم کی مثال ہے کہ دل سمجھ سکتا ہے ، حق وباطل کی تمیز کرسکتا ہے مگر عمل کرنا اسکے بس کاکام نہیں اور جسم عمل کرسکتا ہے مگر کھوٹے کھرے کا فرق نہیں کرسکتا لہٰذا اگر دونوں مل کر عمل کریں تو آخرت کے اعمال کرسکتے ہیں کہ ایک سمجھ لے اوردوسرا کرلے ۔ 

جب وفات کا وقت بالکل ہی قریب آپہنچا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ اے بقیرہ ! یہ سب دروازے کھول دے ، کیونکہ آج میرے پاس زیارت کرنے والے ( فرشتے ) آئیں گے ،پھر اپنی بیوی سے فرمایا کہ وہ مشک کہاں گیا جو بلنجر سے آیا تھا ؟ بیوی نے عرض کیا کہ یہ موجود ہے !فرمایا اسے پانی میں ڈال کر میرے بستر کے چاروں طرف چھڑک دے کیونکہ میرے پاس ایسے بندے آنے والے ہیں جو نہ انسان ہیں نہ جن ،جو خوشبو سونگھتے ہیں ، کھانا نہیں کھاتے ، مشک چھڑک کر ذرا دیر کےلئے میرے پاس سے ہٹ جاؤ ، چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور مشک چھڑک کر ذرا دیر کو ان سے علیحدہ ہوگئی پھر جو آکر دیکھا تو ان کی روح مبارک پرواز کرچکی تھی ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے 35 ھ میں وفات پائی ۔اس وقت مدائن میں مقیم تھے وہیں علیل ہوئے اور وہیں وفات پائی ۔


No comments:

Post a Comment